ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں ملزم کی شناخت اور سزا کیسے ہوتی ہیں؟(تقویٰ نیوز)

 ’مشال خان قتل کیس میں پشاور کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے جب مرکزی ملزم کو موت کی سزا سنائی تو ہم سب خوش تھے کہ چلیں آئندہ تو ڈر پیدا ہو گا اور ایسے واقعات تھم سکیں گے، مگر ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا اور ابھی تک ایسے دردناک واقعات پیش آ رہے ہیں۔‘


یہ کہنا تھا کہ مشال خان کے مقدمے میں وکیل شہاب خان خٹک کا، جو ابھی تک مشال خان کے والد اقبال خان کے ساتھ اس انتظار میں ہیں کہ کب پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ مشال خان کے زیر التوا مقدمے پر سماعت کرتی ہے۔

جمعے کو سیالکوٹ شہر کی ایک فیکٹری میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن مینیجر پریا نتھا کے قتل نے ایسے سوالات کو جنم دیا ہے کہ ایسے واقعات میں ملزمان کی شناخت کیسے ہوتی ہے اور آیا قانون کے مطابق انھیں سزائیں دی جاتی ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان قتل کیس میں مرکزی ملزم عمران علی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا، جسے مشال خان کے والد اقبال خان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

ہم نے قانون کے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پولیس آخر ایسے ہجوم میں مرکزی ملزم کی شناخت کیسے کرتی ہے اور کس بنیاد پر عدالت میں ہجوم میں سے چند ملزمان پر فرد جرم عائد کرانے اور شواہد پیش کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ 


پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل کے مرکزی ملزمان تک پولیس کیسے پہنچتی ہے؟

مشال خان کے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل شہاب خان خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ پُرتشدد ہجوم کے ایسے واقعات میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہاں پر موجود لوگ ایسے دردناک واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز بناتے ہیں۔

ان کے مطابق جب سنہ 2017 مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے طالبعلم مشال خان پُرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے تو یہ سب مناظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیے۔ بعد میں اس واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔

شہاب خٹک کے مطابق پولیس نے ان ویڈیوز میں پہلے شناخت کی کہ کون مشال خان کو مارنے پر اکسا رہا ہے اور کس کا اس سارے معاملے میں کیا کردار ہے۔ ان کے مطابق پولیس نے مرکزی ملزم عمران علی کو گرفتار کر کے اس کی ویڈیو بنائی اور پھر واقعے کی ویڈیوز کے ساتھ اس ویڈیو کو فارنزک کے لیے بھیج دیا۔

ان کے مطابق فارنزک میں یہ ثابت ہو گیا کہ مشال خان کو گولی مارنے والا مرکزی ملزم وہی ہے جس کی حراست کے دوران پولیس نے ویڈیو بنا کر تصدیق کے لیے بھیجی تھی۔

وکیل شہاب خٹک کے مطابق فوجداری مقدمات میں مزید شہادتیں جمع کرنے کے بھی طریقہ کار درج ہیں مگر ایسے مذہبی نوعیت کے واقعات میں ملزمان خود بھی اپنے کیے سے انکاری نہیں ہوتے اور وہ خود بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایسا اس وجہ سے کیا ہے۔


مرکزی ملزمان تک پہنچنے کے لیے پہلا کام جیو فینسنگ

فوجداری قوانین کے ماہر بیرسٹر سلمان صفدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے واقعات میں سب سے پہلے تو مرکزی ملزمان کی شناخت ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے کی جاتی ہے، جس میں اس علاقے کی ’جیو فینسنگ‘ کی جاتی ہے یعنی حقائق کو جدید آلات، سائنسی شواہد اور طریقوں کے ذریعے اکھٹا کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق کی رائے میں جیو فینسنگ ایک طویل اور پیچیدہ طریقہ تفتیش ہے۔ ان کے خیال میں آج کے دور میں ویڈیوز ہی ملزمان تک پہنچنے کا اہم ذریعہ ہیں۔

مولوی انوارالحق کے مطابق پولیس کو وقت ضائع کیے بغیر ایسے شواہد کو سامنے لانا ضروری ہوتا ہے وگرنہ دیر سے پیش کیے جانے والے شواہد کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

ان کی رائے میں جن افراد نے بھی ویڈیوز بنائی ہیں ان کا عدالت میں آ کر یہ شہادت دینا بھی ضروری ہے کیونکہ ان مقدمات میں موت کی سزا ہوتی ہے۔

سلمان صفدر کے مطابق سیالکوٹ واقعے کی ویڈیوز بھی دستیاب ہیں۔

اس ویڈیو میں جو افراد سری لنکن شہری پریا نتھا پر تشد کر رہے ہیں اور اسے جان سے مار رہے ہیں وہ سب نظر آ رہے ہیں۔

ان کے مطابق اس کے علاوہ فیکٹری کے اندر کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ پریا نتھا کے ساتھ اس سارے تنازع کی بنیاد کس نے رکھی۔

سلمان صفدر کی رائے میں پولیس کی تحقیقات اور سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل ہونے والے جدید سائنسی شواہد، جس میں موبائل ڈیٹا کا اہم ترین کردار ہوتا ہے جو مرکزی ملزم کی شناخت کرتا ہے اور پھر یہی شواہد ملزم کی سزا کا باعث بن جاتے ہیں۔

شہاب خٹک کے مطابق دیگر شواہد میں پولیس یہ جانچ پڑتال بھی کر سکتی ہے کہ جمعے والے دن کون کون ڈیوٹی پر موجود تھا اور اس وقت جب یہ تنازع شروع ہوا تو کس نے کیا کردار ادا کیا تھا۔

ان کی رائے میں پولیس جس انداز میں شہادتیں جمع کرتی ہے اس کی فوجداری قوانین میں اپنی اہمیت ہوتی ہے۔

کیا مرکزی ملزم ایک ہی ہوتا ہے؟

مولوی انوارالحق کے مطابق اگر کسی ایک شخص کے وار سے یا گولی سے کسی کی موت واقع بھی ہوجائے تو ایسے میں پرتشدد ہجوم میں دیگر لوگوں کی جان خلاصی نہیں ہو جاتی۔

ان کی رائے میں سیالکوٹ واقعے کی ویڈیوز بہت صاف ہیں اور ’کامن اٹینشنز‘ کی شق کے تحت دیگر ملزمان جن کی شناحت ہو رہی ہے انھیں بھی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔

سرکاری طور پر نصب کیے گئے کیمروں سے شواہد اکھٹے کرنے کے بارے میں سابق اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ ایسے میں صرف ان کیمروں کا انچارج ہی جا کر عدالت کی تسلی کرا سکتا ہے کہ کونسی ویڈیو کس کیمرے سے حاصل کی گئی ہے۔


قریب 11 سال قبل سیالکوٹ میں دو سگے بھائیوں حافظ مغیث اور منیب کو رسیوں سے باندھا گیا اور پھر دونوں پر ڈنڈوں سے تشدد کر کے انھیں ہلاک کردیا گیا

پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں منیب اور مغیث کا قتل، سپریم کورٹ میں ملزم سزائے موت سے بچ گئے

سنہ 2010 میں سیالکوٹ کے نواحی علاقے بٹر میں پولیس کی موجودگی میں بہت سے لوگوں نے دو سگے بھائیوں حافظ مغیث اور منیب کو رسیوں سے باندھا اور اس کے بعد دونوں بھائیوں پر ڈنڈوں سے تشدد کر کے انھیں ہلاک کردیا۔

ہجوم نے دونوں بھائیوں کی لاشوں کو پہلے الٹا لٹکایا اور بعد میں ان بھائیوں کی لاشوں کو شہر میں گھمایا۔

اس واقعے کی بنائی جانے والی فوٹیج کو پاکستان میں مقامی ٹی وی چینلوں نے نشر کیا، جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس کا نوٹس لیا۔

ان دو بھائیوں کے قتل کے ذمہ داران کو سنائی جانے والی سزائے موت کو گذشتہ برس سپریم کورٹ نے عمر قید میں بدل دیا۔

خیال رہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تو مولوی انوارالحق اٹارنی جنرل کے منصب پر فائز تھے۔

ان سے جب ماضی میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں ملزمان کی بریت اور سزائیں کم ہونے سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ تمام شواہد کے بعد یہ عدالت پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ وہ پولیس کے پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر ملزمان کو کیا سزا سنائے۔

واضح رہے کہ مولوی انوارالحق لاہور ہائی کورٹ کے جج بھی رہ چکے ہیں۔

’بات ذہنیت کی ہے، سزا بگاڑ پیدا کرنے والے کو بھی ملنی چاہیے‘

مشال خان کے وکیل شہاب خٹک کے مطابق ’موب جسٹس‘ یا پرتشدد ہجوم کے واقعات ایک دن میں نہیں ہوتے بلکہ ایسے واقعات کے لیے پہلے باقاعدہ ذہن سازی کی جاتی ہے۔

ان کے خیال میں ریاست کا یہ کام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی یقینی بنائے۔

شہاب خٹک کی رائے میں اس وقت ’ریاست خود ایک ایسے بیانیے کو سپورٹ کر رہی ہے، جس سے مذہب کے نام پر عدم برداشت اور ایسے پرتشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔‘

ان کے خیال میں فیصلہ ساز مذہب کو اتحاد کے ایک ہتھیار کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ ان وجوہات سے صرف نظر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسے دلخراش واقعات پیش آتے ہیں۔

ان کے مطابق جب مذہب کی بنیاد پر کیے جانے والے ایسے واقعات میں کسی کو سزا ہوتی ہے تو معاشرے میں اسے ہیرو کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور پھر ادارے بھی اس دباؤ کو محسوس کرتے ہیں اور آخر میں ایسے سنگین واقعات میں ملوث ملزمان بری ہوجاتے ہیں یا ان کی سزائیں کم ہو جاتی ہیں۔

ان کی رائے میں ’اس وقت نفرت پر مبنی تقریر تو کوئی جرم ہی نہیں رہ گیا ہے۔‘

شہاب خٹک کا کہنا ہے اگر ریاست نے نفرت پر مبنی بیانیہ بدلنا ہے تو پھر ایسے بیانیے کو میڈیا، عدالتوں، عبادت گاہوں اور درس گاہوں کے ذریعے بدلنا ہو گا۔ ان کے مطابق ایسے مقدمات دہشتگردی کی عدالتوں میں سنے جاتے ہیں اور یہی ذہنیت معاشرے میں دہشتگردی کا باعث بنتی ہے۔

شکریہ( تقویٰ نیوز )





Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سیالکوٹ واقعے پر اب بہت جلد انصاف مل جائے گا، شہباز گل(Taqwa News)

وہاڑی میں نصب قائداعظم کے مجسمے سے عینک چرالی گئی، انتظامیہ (Taqwa News)